یہ میرا مڑ مڑ کے دیکھ لینا بھی ہے مِری شان رہبرانہ
قدم میں کس طرح تیز کر دوں کہ مِرے پیچھے ہے اک زمانہ
مِری نظر کو زبان دے کر تِرا سکوتِ مدبرانہ
مجھی سے کہلا رہا ہے مِری شکستِ خاموش کا فسانہ
فسوں میں بھی ہیں جنوں کے تیور، کشش میں بھی ہے تپش کا عالم
جہاں فسونِ وفا بھی باطل، وہاں خودی کیا زبان کھولے
جہاں جنوں بھی ادب سے چپ ہو وہاں خرد کا کہاں ٹھکانہ
ق
ہماری وحشت نے اس خرابے کو اپنے دل کا فراغ بخشا
ہماری حیرت نے اس خرابے کو کر دیا اک نگار خانہ
جمیلؔ رازِِ آگہی پہ اپنی نہ ڈال وارفتگی کے پردے
نگاہ کتنی ہی مشتعل ہو، مگر یہ تیور ہیں محرمانہ
جمیل مظہری
No comments:
Post a Comment