کیا زمانہ تھا کہ تھے دِلدار کے یاروں میں ہم
شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم
اجڑی اجڑی بستی میں دنیا کی جی لگتا نہیں
تنگ آئے ہیں بہت ان چار دیواروں میں ہم
جو یہی ہے غم، الم، رنج و قلق ہجراں کا، تو
شاید آوے حال پرسی کرنے اس امید پر
کب سے ہیں دارالشفا میں اس کے بیماروں میں ہم
دھوپ میں جلتے ہیں پہروں آگے اس کے میرؔ جی
رفتگی سے دل کی ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں ہم
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment