اب بھی مجھ کو شکوہ چشمِ نم سے ہے
رِشتہ جس کا تنہائی کے غم سے ہے
عشق سہارے دیتا ہے ضعفِ دل کو
ورنہ تو ہر خوشبو بھی موسم سے ہے
بھیگی آنکھوں نے کھولا ہے یہ عقدہ
یوں امید کا دامن تھاما ہے میں نے
جیسے بندھن ٹیسوں کا مرہم سے ہے
دشمن! زورِ بازو پر کیا نازاں ہو
اسکے خونیں وار کی شہرت ہم سے ہے
آدم نے ہی دنیا کو برباد کیا
دنیا کی رنگینی بھی آدم سے ہے
چاند کے مانند ٹھنڈا ہے اجلا چہرہ
گرمی تو زلفوں کے پیچ و خم سے ہے
جان چکا ہے عہدِ نو بھی آخر کار
دھڑکن تو اب ناصرؔ کے ہی دم سے ہے
ناصر ملک
No comments:
Post a Comment