Sunday 29 May 2016

خواب كی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

خواب كی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے 
ایسی تنہائی، کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں 
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشان تک نا بتائے 
ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
کبھی مل جاۓ تو رستے كے تھکن جاگ پڑے 
ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
وہی پیمان جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت 
اسی پیمان سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment