رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے، موسمِ کیف و مستی ہے
پھر بھی یہاں سے حدِ نظر تک پیاسوں کی اک بستی ہے
دل جیسا انمول رتن تو جب بھی گیا،۔ بے دام گیا
جان کی قیمت کیا مانگیں، یہ چیز تو خیر اب سستی ہے
دل کی کھیتی سُوکھ رہی ہے، کیسی یہ برسات ہوئی
افسانوں کی قندیلیں ہیں، ان دیکھی محرابوں پر
لوگ جسے صحرا کہتے ہیں، دیوانوں کی بستی ہے
راہی معصوم رضا
No comments:
Post a Comment