او دل توڑ کے جانے والے! دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
ہاں میرے مجروح تبسم! خشک لبوں تک آتا جا
پھول کی ہست و بود یہی ہے، کھِلتا جا، مرجھاتا جا
میری چپ رہنے کی عادت جس کارن بدنام ہوئی
یہ دکھ درد کی برکھا بندے! دَین ہے تیرے داتا کی
شکرِ نعمت بھی کرتا جا،۔ دامن بھی پھیلاتا جا
جینے کا ارمان کروں، یا مرنے کا سامان کروں
عشق میں کیا ہوتا ہے ناصح! عقل کی بات سجھاتا جا
دونوں سنگِ راہِ طلب ہیں، راہنما بھی، منزل بھی
ذوقِ طلب! ہر ایک قدم پر دونوں کو ٹھکراتا جا
نغمے سے جب پھول کھلیں گے، چننے والے چن لیں گے
سننے والے سن لیں گے، تُو اپنی دھن میں گاتا جا
آخر تجھ کو بھی موت آئی خیر حفیطؔ خدا حافظ
لیکن مرتے مرتے پیارے! وجہِ مرگ بتاتا جا
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment