Thursday 12 May 2016

آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے

آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
کرنا سلوک خوب ہے اہلِ نیاز سے
پھِرتے ہو کیا درختوں کے سائے میں دور دور
کر لو موافقت کسو بے برگ و ساز سے
ہجراں میں اس کے زندگی کرنا بھلا نہ تھا
کوتاہی جو نہ ہووے یہ عمرِ دراز سے
کرتا ہے چھید چھید ہمارا جگر تمام
وہ دیکھنا تِرا مژۂ نیم باز سے
دل پر ہو اختیار تو ہرگز نہ کریے عشق
پرہیز کریے اس مرضِ جاں گداز سے
مانع ہوں کیونکہ گریۂ خونیں کے عشق میں
ہے ربط خاص چشم کو افشائے راز سے
شاید شراب خانے میں شب کو رہے تھے میرؔ
کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment