آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
کرنا سلوک خوب ہے اہلِ نیاز سے
پھِرتے ہو کیا درختوں کے سائے میں دور دور
کر لو موافقت کسو بے برگ و ساز سے
ہجراں میں اس کے زندگی کرنا بھلا نہ تھا
کرتا ہے چھید چھید ہمارا جگر تمام
وہ دیکھنا تِرا مژۂ نیم باز سے
دل پر ہو اختیار تو ہرگز نہ کریے عشق
پرہیز کریے اس مرضِ جاں گداز سے
مانع ہوں کیونکہ گریۂ خونیں کے عشق میں
ہے ربط خاص چشم کو افشائے راز سے
شاید شراب خانے میں شب کو رہے تھے میرؔ
کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment