Saturday, 7 May 2016

خندہ لب سے غم دل کو نکھارا جائے

خندۂ لب سے غمِ دل کو نکھارا جائے
زیست کا قرض سلیقے سے اتارا
کسی چہرے پہ تبسم، نہ کسی آنکھ میں اشک
اجنبی شہر میں اب کون دوبارا جائے
شام کو بادہ کشی، شب کو تِری یاد کا جشن
مسئلہ یہ ہے، کہ دن کیسے گزارا جائے
تُو کبھی درد، کبھی شعلہ، کبھی شبنم ہے
تجھ کو کس نام سے اے زیست! پکارا جائے
ہارنا بازئ الفت کا ہے اک کھیل، مگر
لطف جب ہے کہ اسے جیت کے ہارا جائے
ڈس لیا ہے کسی ناگن نے تو اے جذبۂ شوق
اب یہ ضد کیوں ہے کہ یہ زہر اتارا جائے
اس مقدر کے سنورنے کی دعا کیا مانگیں
جو تِری چشمِ کرم سے نہ نکھارا جائے
غمِ دوراں، غمِ جاناں،۔ غمِ ہستی، ساحرؔ
بوجھ کوئی بھی ہو سر سے نہ اتارا جائے

ساحر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment