عذابِ بے دلئ جانِ مبتلا، نہ گیا
جو سر پہ بار تھا اندیشۂ سزا، نہ گیا
خموش ہم بھی نہ تھے حضورِ یار، مگر
جو کہنا چاہتے تھے، بس وہی کہا نہ گیا
رہے مُصر کہ اٹھا دیں وہ انجمن سے ہمیں
ہمارے نام سے، جب ذکرِ بے وفائی چلا
جنوں میں بول پڑے ہم سے بھی رہا نہ گیا
ہمارا قصۂ غم بیچ میں وہ چھوڑ اٹھے
انہی کی ضد تھی مگر ان ہی سے سنا نہ گیا
زمانے بھر نے کہا عرشؔ جو، خوشی سے سہا
پر ایک لفظ جو اس نے کہا، سنا نہ گیا
عرش صدیقی
No comments:
Post a Comment