وہ جسے اب تک سمجھتا تھا میں پتھر، سامنے تھا
اک پگھلتی موم کا سیال پیکر سامنے تھا
میں نے چاہا آنے والے وقت کا اک عکس دیکھوں
بے کراں ہوتے ہوئے لمحے کا منظر سامنے تھا
اپنی اک پہچان دی آئی گئی باتوں میں اس نے
میں یہ سمجھا تھا کہ سرگرمِ سفر ہے کوئی طائر
جب رکی آندھی تو اک گرتا ہوا 'پر' سامنے تھا
میں نے کتنی بار چاہا خود کو لاؤں راستے پر
میں نے پھر کوشش بھی کی لیکن مقدر سامنے تھا
سرد جنگل کی سیاہی پاٹ کر نکلے ہی تھے ہم
آخری کرنوں کو تِہ کرتا سمندر سامنے تھا
ٹوٹنا تھا کچھ عجب قہرِ سفر پہلے قدم پر
مڑ گئی تھی آنکھ ہنستا کھیلتا گھر سامنے تھا
پشت پر یاروں کی پسپائی کا نظارہ تھا شاید
دشمنوں کا مسکراتا ایک لشکر سامنے تھا
آنکھ میں اترا ہوا تھا شام کا پہلا ستارہ
رات خالی سر پہ تھی اور سرد بستر سامنے تھا
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment