Friday 6 May 2016

مست اڑتے پرندوں کو آواز مت دو کہ ڈر جائیں گے

مست اڑتے پرندوں کو آواز مت دو کہ ڈر جائیں گے
آن کی آن میں سارے اوراق منظر بکھر جائیں گے
شام چاندی سی اک یاد پلکوں پہ رکھ کر چلی جاۓ گی
اور ہم روشنی روشنی اپنے اندر اتر جائیں گے
کون ہیں کس جگہ ہیں کہ ٹوٹا ہے جن کے سفر کا نشہ
ایک ڈوبی سی آواز آتی ہے پیہم کہ گھر جائیں گے
اے ستارو! تمہیں اپنی جانب سے شاید نہ کچھ دے سکیں
ہم مگر راستوں میں رکھے سب چراغوں کو بھر جائیں گے
وقت میں اک جگہ سی بناتے ہوۓ تِیرہ لمحے یہی
کوئی اندھی کہانی مِرے دل پہ تحریر کر جائیں گے
ہم نے سمجھا تھا موسم کی بے رحمیوں کو بھی ایسا کہاں
اس طرح برف گرتی رہے گی کہ دریا ٹھہر جائیں گے
آج آیا ہے اک عمر کی فرقتوں میں عجب دھیان سا
یوں فراموشیاں کام کر جائیں گی زخم بھر جائیں گے

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment