مست اڑتے پرندوں کو آواز مت دو کہ ڈر جائیں گے
آن کی آن میں سارے اوراق منظر بکھر جائیں گے
شام چاندی سی اک یاد پلکوں پہ رکھ کر چلی جاۓ گی
اور ہم روشنی روشنی اپنے اندر اتر جائیں گے
کون ہیں کس جگہ ہیں کہ ٹوٹا ہے جن کے سفر کا نشہ
اے ستارو! تمہیں اپنی جانب سے شاید نہ کچھ دے سکیں
ہم مگر راستوں میں رکھے سب چراغوں کو بھر جائیں گے
وقت میں اک جگہ سی بناتے ہوۓ تِیرہ لمحے یہی
کوئی اندھی کہانی مِرے دل پہ تحریر کر جائیں گے
ہم نے سمجھا تھا موسم کی بے رحمیوں کو بھی ایسا کہاں
اس طرح برف گرتی رہے گی کہ دریا ٹھہر جائیں گے
آج آیا ہے اک عمر کی فرقتوں میں عجب دھیان سا
یوں فراموشیاں کام کر جائیں گی زخم بھر جائیں گے
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment