Thursday 5 May 2016

دل کا یا جی کا زیاں کرنا پڑے

دل کا یا جی کا زیاں کرنا پڑے
کچھ نہ کچھ نذرِ جہاں کرنا پڑے
دل کو ہے پھر چند کانٹوں کی تلاش
پھر نہ سیرِ گلستاں کرنا پڑے
حالِ دل ان کو بتانے کے لیے
ایک عالم سے بیاں کرنا پڑے
پاسِ دنیا میں ہے اپنی بھی شکست
اور تجھے بھی بدگماں کرنا پڑے
ہوشیار اے جذبِ دل! اب کیا خبر
تذکرہ کس کا، کہاں کرنا پڑے
اب تو ہر اک مہرباں کی بات پر
ذکرِ دورِ آسماں کرنا پڑے
زیست کی مجبوریاں باقیؔ نہ پوچھ
ہر نفس کو داستاں کرنا پڑے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment