دل کا یا جی کا زیاں کرنا پڑے
کچھ نہ کچھ نذرِ جہاں کرنا پڑے
دل کو ہے پھر چند کانٹوں کی تلاش
پھر نہ سیرِ گلستاں کرنا پڑے
حالِ دل ان کو بتانے کے لیے
پاسِ دنیا میں ہے اپنی بھی شکست
اور تجھے بھی بدگماں کرنا پڑے
ہوشیار اے جذبِ دل! اب کیا خبر
تذکرہ کس کا، کہاں کرنا پڑے
اب تو ہر اک مہرباں کی بات پر
ذکرِ دورِ آسماں کرنا پڑے
زیست کی مجبوریاں باقیؔ نہ پوچھ
ہر نفس کو داستاں کرنا پڑے
باقی صدیقی
No comments:
Post a Comment