Thursday, 1 December 2016

زخموں نے مجھ میں دروازے کھولے ہیں

زخموں نے مجھ میں دروازے کھولے ہیں
میں نے وقت سے پہلے ٹانکے کھولے ہیں
باہر آنے کی بھی سکت نہیں ہم میں
تُو نے کس موسم میں پنجرے کھولے ہیں
کون ہماری پیاس پہ ڈاکہ ڈال گیا
کس نے مشکیزوں کے تسمے کھولے ہیں
ورنہ دھوپ کا پربت کس سے کٹتا تھا
اس نے چھتری کھول کے رستے کھولے ہیں
یہ میرا پہلا رمضان تھا اس کے بغیر
مت پوچھو کس منہ سے روزے کھولے ہیں
یوں تو مجھ کو کتنے خط موصول ہوئے
اک دو ایسے ہیں جو دل سے کھولے ہیں
منت ماننے والوں کو معلوم نہیں
کس نے آ کے پیڑ سے دھاگے کھولے ہیں
دریا بند کیا ہے کوزے میں تہذیبؔ
اک چابی سے سارے تالے کھولے ہیں

تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment