ملنا ہے گر رقیب سے وہ بے وفا ملے
چاہیں گے ہم بھی کوئی بتِ دلربا ملے
بس جی چکے، اجل کا الہٰی مزا ملے
آبِ بقا دے خضرؑ کو، مجھ کو فنا ملے
آئے ہیں پھول باغ میں اب سال بھر کے بعد
قاتل بنا ہے اک بتِ رشکِ قمر مرا
مجھ کو کفن بھی چادرِ مہتاب کا ملے
تسلیمؔ نیک و بد کی نہیں اپنے کچھ خبر
کس کی جزا ملے ہمیں کس کی سزا ملے
تسلیم لکھنوی
No comments:
Post a Comment