وعدۂ وصل پہ وہ چھپ چھپ کے وفا کرتے ہیں
خواب میں آ کے گلے مجھ سے ملا کرتے ہیں
کیوں خفا بیٹھے ہو منہ پھیرے ہوۓ تم ہم سے
دل کی کہتے ہیں، نہ غیروں کا گِلا کرتے ہیں
بت سے مطلب نہ کلیسا سے غرض کچھ ہم کو
فتنۂ حشر کی کیا فکر کریں اے واعظ
ایسے ہنگامے زمانے میں ہُوا کرتے ہیں
سبزۂ گلشنِ فردوس کہو اے تسلیمؔ
خط جو کہتے ہیں، خطِ رخ کو خطا کرتے ہیں
تسلیم لکھنوی
No comments:
Post a Comment