Thursday, 1 December 2016

وعدہ وصل پہ وہ چھپ چھپ کے وفا کرتے ہیں

وعدۂ وصل پہ وہ چھپ چھپ کے وفا کرتے ہیں
خواب میں آ کے گلے مجھ سے ملا کرتے ہیں
کیوں خفا بیٹھے ہو منہ پھیرے ہوۓ تم ہم سے
دل کی کہتے ہیں، نہ غیروں کا گِلا کرتے ہیں
بت سے مطلب نہ کلیسا سے غرض کچھ ہم کو
جس کے بندے ہیں اسے یاد کیا کرتے ہیں
فتنۂ حشر کی کیا فکر کریں اے واعظ
ایسے ہنگامے زمانے میں ہُوا کرتے ہیں
سبزۂ گلشنِ فردوس کہو اے تسلیمؔ
خط جو کہتے ہیں، خطِ رخ کو خطا کرتے ہیں

تسلیم لکھنوی

No comments:

Post a Comment