بہار آئی ہے اب مجھ کو نکل جانا ہے گلشن سے
نگاہِ باغباں ہٹتی نہیں میرے نشیمن سے
نشیمن میں ہمیں کیا امن کی صورت نظر آۓ
دکھائ دے رہا ہو جب قفس شاخِ نشیمن سے
قفس میں ہوں مگر اس پر قناعت کی نہیں جاتی
پہنچ جاتا ہے اپنا ہاتھ خود اپنے گریباں تک
وہ ہم کو دیکھ کر جب منہ چھپا لیتے ہیں دامن سے
بڑھا کر شوقِ نظارہ، بڑھائ حسن کی تابش
لگائے چار چاند اس نے رخِ روشن کو چلمن سے
تِرے غمزے لڑا دیں گے مسلماں کو مسلماں سے
تِرے عشوے بھڑا دیں گے برہمن کو برہمن سے
ہوا ہے باعثِ تکلیف، اب شغلِ سخن وحشؔت
تعلق قطع کرنا ہی پڑے گا مجھ کو اس فن سے
وحشت کلکتوی
No comments:
Post a Comment