Sunday, 25 December 2016

بہار آئی ہے اب مجھ کو نکل جانا ہے گلشن سے

بہار آئی ہے اب مجھ کو نکل جانا ہے گلشن سے
نگاہِ باغباں ہٹتی نہیں میرے نشیمن سے
نشیمن میں ہمیں کیا امن کی صورت نظر آۓ
دکھائ دے رہا ہو جب قفس شاخِ نشیمن سے
قفس میں ہوں مگر اس پر قناعت کی نہیں جاتی
خیال آتا ہے گلشن کا، پیام آتے ہیں گلشن سے
پہنچ جاتا ہے اپنا ہاتھ خود اپنے گریباں تک
وہ ہم کو دیکھ کر جب منہ چھپا لیتے ہیں دامن سے
بڑھا کر شوقِ نظارہ، بڑھائ حسن کی تابش
لگائے چار چاند اس نے رخِ روشن کو چلمن سے
تِرے غمزے لڑا دیں گے مسلماں کو مسلماں سے
تِرے عشوے بھڑا دیں گے برہمن کو برہمن سے
ہوا ہے باعثِ تکلیف، اب شغلِ سخن وحشؔت
تعلق قطع کرنا ہی پڑے گا مجھ کو اس فن سے

وحشت کلکتوی

No comments:

Post a Comment