Sunday, 25 December 2016

خواب محل میں کون سر شام آ کر پتھر مارتا ہے

خواب محل میں کون سر شام آ کر پتھر مارتا ہے
روز اک تازہ کانچ کا برتن ہاتھ سے گِر کر ٹوٹتا ہے
مکڑی نے دروازے پہ جالے دور تلک بُن رکھے ہیں
پھر بھی کوئ گزرے دنوں کی اوٹ سے اندر جھانکتا ہے
شور سا اٹھتا رہتا ہے دیواریں بولتی رہتی ہیں
شام ابھی تک آ نہیں پاتی کوئ کھلونے توڑتا ہے
اول شب کی لوری بھی کب کام کسی کے آتی ہے
دل وہ بچہ اپنی صدا پر کچی نیند سے جاگتا ہے
اندر باہر کی آوازیں اک نقطے پر سمٹی ہیں
ہوتا ہے گلیوں میں واویلا میرا لہو جب بولتا ہے
میری سانسوں کی لرزش منظر کا حصہ بنتی ہے
دیکھتا ہوں میں کھڑکی سے جب شاخ پہ پتہ کانپتا ہے
میرے سرہانے کوئ بیٹھا ڈھارس دیتا رہتا ہے
نبض پہ ہاتھ بھی رکھتا ہے ٹوٹے دھاگے بھی جوڑتا ہے
بادل اٹھے یا کہ نہ اٹھے بارش بھی ہو یا کہ نہ ہو
میں جب بھیگنے لگتا ہوں وہ سر پر چھتری تانتا ہے
وقت گزر نے کے ہم راہ بہت کچھ سیکھا اختؔر نے
ننگے بدن کو کرنوں کے پیراہن سے اب ڈھانپتا ہے

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment