کسے خبر جب میں شہرِ جاں سے گزر رہا تھا
زمیں تھی پہلو میں سورج اک کوس پر رہا تھا
ہوا میں خوشبوئیں میری پہچان بن گئی تھیں
میں اپنی مٹی سے پھول بن کر ابھر رہا تھا
وہ کیسی چھت تھی جو مجھ کو آواز دے رہی تھی
میں دیکھتا تھا کہ انگلیوں میں دِیے کی لو ہے
میں جاگتا تھا کہ رنگ خوابوں میں بھر رہا تھا
یہ بات الگ ہے کہ میں نے جھانکا نہیں گلی میں
یہ سچ ہے، کوئی صدائیں دیتا گزر رہا تھا
یہ چند بے حرف و صوت خاکے مِرا اثاثہ
میں جن کو غزلوں کا نام دے کر سنور رہا تھا
زمانہ شبنم کے بھیس میں آیا اور دعا دی
میں زرد رت میں جب اپنی بانہوں میں مر رہا تھا
عجیب سرگوشیوں کا عالم تھا انجمن میں
میں سن رہا تھا، زمانہ تنقید کر رہا تھا
مجھے کسی سے نقب زنی کا خطر نہیں تھا
میں اختؔر اپنے ہی جسد خاکی سے ڈر رہا تھا
اختر ہوشیار پوری
No comments:
Post a Comment