Sunday, 25 December 2016

منڈلاتے ہوئے جب ہر جانب طوفاں ہی طوفاں ہوتے ہیں

یہ صحن و روش، یہ لالہ وگل، ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں
تخریبِ جنوں کے پردے میں تعمیر کے ساماں ہوتے ہیں
منڈلاتے ہوئے جب ہر جانب طوفاں ہی طوفاں ہوتے ہیں
دیوانے کچھ آگے بڑھتے ہیں اور دست و گریباں ہوتے ہیں
زندوں نے جو چھیڑا زاہد کو، ساقی نے کہا کس طنز سے آج
اوروں کی وہ عظمت کیا جانیں، کم ظرف جو انساں ہوتے ہیں
تُو خوش ہے کہ تجھ کو حاصل ہیں، میں خوش ہوں کہ مرے حصے میں نہیں
وہ کام جو آساں ہوتے ہیں، وہ جلوے جو ارزاں ہوتے ہیں
آسودۂ ساحل تو ہے مگر، شاید یہ تجھے معلوم نہیں
ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں، خاموش بھی طوفاں ہوتے ہیں
یہ خون جو ہے مظلوموں کا ضائع تو نہ جائے گا، لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں
جو حق کی خاطر جیتے ہیں، مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگرؔ

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment