Tuesday, 1 September 2020

تم جو مل جاتے شب غم کی سحر ہو جاتی

زندگی لاکھ کٹھن پھر بھی بسر ہو جاتی
تم جو مل جاتے شبِ غم کی سحر ہو جاتی
میں نے دنیا کو پرکھنا تھا تِرے لہجے سے
کیا بگڑ جاتا تِرا،۔ بات اگر ہو جاتی
تیرے آنچل پہ یہ دھبہ نہ دکھائی دیتا
چاہے پوشاک مِری خون میں تر ہو جاتی
شہر کے داخلی رستوں پہ بچھاتا آنکھیں
کاش مجھ کو تیرے آنے کی خبر ہو جاتی
ہمسفر تُو نے تسلی ہی نہیں دی، ورنہ
دشت کی دھوپ مِرے سر پہ شجر ہو جاتی
جانے والے نے اگر مڑ کے نہ دیکھا ہوتا
زندگی کونج کا ٹوٹا ہوا پر ہو جاتی
عشق کا خاص علاقہ نہیں ورنہ، راکب
کائنات ایک طرف محوِ سفر ہو جاتی

راکب مختار

No comments:

Post a Comment