ہوا کی تلوار چل رہی، حبس کٹ رہا ہے
میں پھیلتا جا رہا ہوں اور دن سمٹ رہا ہے
کہیں میں صحرا میں اپنی وحشت اڑا رہا تھا
کوئی سمندر مِری اداسی سے اٹ رہا ہے
ہمارے سینے میں ایک دل تھا اور ایک خانہ
یہ قحط سالی کے دن ہیں اور ہم لٹا رہے ہیں
ہماری آنکھوں سے نَم کا املاک گھٹ رہا ہے
گھڑی کی سوئیوں کی گرد آلودگی کا نوحہ
میں سن رہا ہوں، تو گزرا لمحہ پلٹ رہا ہے
کسی کے 'کشکول' میں گرایا گیا تھا مجھ کو
اور اب وہ 'دیوانہ' اپنا 'کاسہ' الٹ رہا ہے
میں اپنے دشمن پہ وار کرنے چلا ہوں سعدی
سو میرا ہمزاد میرے رستے سے ہٹ رہا ہے
رضا اللہ سعدی
No comments:
Post a Comment