Wednesday, 2 September 2020

صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا

صبحِ وصال زیست کا نقشہ بدل گیا
مرغ سحر کے بولتے ہی دم نکل گیا
دامن پہ لوٹنے لگے گر گر کے طفل اشک
روئے فراق میں تو دل اپنا بہل گیا
دشمن بھی گر مِرے تو خوشی  کا محل نہیں
کوئی جہاں سے آج گیا، کوئی کل گیا
مِل جاؤ گر تو پھر وہی باہم ہوں صحبتیں
کچھ تم بدل گئے ہو نہ کچھ میں بدل گیا
مجھ دل جلے کی نبض جو دیکھی طبیب نے
"کہنے لگا کہ "آہ مِرا ہاتھ جل گیا
جیتا رہا اٹھانے کو صدمے فراق کے
دم وصل میں تِرا نہ امانت نکل گیا

امانت لکھنوی

No comments:

Post a Comment