Tuesday, 27 April 2021

عجیب پانے سے مسئلے ہیں قریب آنے سے مسئلے ہیں

 عجیب پانے سے مسئلے ہیں قریب آنے سے مسئلے ہیں

تجھے فقط ہم سے مسئلہ ہے ہمیں زمانے سے مسئلے ہیں

حلال کھا کر جو پیٹ بھرتا رہا ہے اپنا مشقتوں سے

امیر میرے تُجھے بھلا کیوں غریب خانے سے مسئلے ہیں

نیا زمانہ ہے نوجوانوں کے لب پہ اپنے نئے ترانے

قدیم لوگوں کو اب جوانوں کے اس ترانے سے مسئلے ہیں

نہ لڑ سکو گے نہ مر سکو گے نہ عہد اپنے وفا کرو گے

ہزار وعدے کرو نہ ہم سے اگر نبھانے سے مسئلے ہیں

میں مر تو لوں گی مگر مجھے اک خیال آتا ہے میری ماں کا

جوان عمری کی موت جیسی خبر سُنانے سے مسئلے ہیں

یہ مسکرانا کہ مسکرانے سے آنکھ اشکوں سے بھر رہی ہو

ہنسوں گی اتنا کہ رو پڑوں گی مجھے ہنسانے سے مسئلے ہیں

اُداسیاں اس قدر نہیں تھیں، مگر یہ تیرے بغیر جانا

جو مُشکلوں سے ہمیں مِلا ہو اسے گنوانے سے مسئلے ہیں

وفا شعاری کے سب قرینے تجھے مبارک سدا سلامت

تُو رُوٹھ تو جا مگر یہ سُن لے مجھے منانے سے مسئلے ہیں

وہ ایک لڑکی جو مُشکلوں سے سکوتِ شب میں اُتر رہی ہے

اگر وہ نیندوں میں ڈر گئی تو اُسے سُلانے سے مسئلے ہیں


مشال مراد

No comments:

Post a Comment