عجیب پانے سے مسئلے ہیں قریب آنے سے مسئلے ہیں
تجھے فقط ہم سے مسئلہ ہے ہمیں زمانے سے مسئلے ہیں
حلال کھا کر جو پیٹ بھرتا رہا ہے اپنا مشقتوں سے
امیر میرے تُجھے بھلا کیوں غریب خانے سے مسئلے ہیں
نیا زمانہ ہے نوجوانوں کے لب پہ اپنے نئے ترانے
قدیم لوگوں کو اب جوانوں کے اس ترانے سے مسئلے ہیں
نہ لڑ سکو گے نہ مر سکو گے نہ عہد اپنے وفا کرو گے
ہزار وعدے کرو نہ ہم سے اگر نبھانے سے مسئلے ہیں
میں مر تو لوں گی مگر مجھے اک خیال آتا ہے میری ماں کا
جوان عمری کی موت جیسی خبر سُنانے سے مسئلے ہیں
یہ مسکرانا کہ مسکرانے سے آنکھ اشکوں سے بھر رہی ہو
ہنسوں گی اتنا کہ رو پڑوں گی مجھے ہنسانے سے مسئلے ہیں
اُداسیاں اس قدر نہیں تھیں، مگر یہ تیرے بغیر جانا
جو مُشکلوں سے ہمیں مِلا ہو اسے گنوانے سے مسئلے ہیں
وفا شعاری کے سب قرینے تجھے مبارک سدا سلامت
تُو رُوٹھ تو جا مگر یہ سُن لے مجھے منانے سے مسئلے ہیں
وہ ایک لڑکی جو مُشکلوں سے سکوتِ شب میں اُتر رہی ہے
اگر وہ نیندوں میں ڈر گئی تو اُسے سُلانے سے مسئلے ہیں
مشال مراد
No comments:
Post a Comment