درد جب سے دل نشیں ہے عشق ہے
اس مکاں میں کچھ نہیں ہے عشق ہے
دیکھ، دشتِ یاد کا اعجاز دیکھ
میں کہیں ہوں تو کہیں ہے عشق ہے
تھک کے بیٹھا ہوں جو کُنجِ ذات میں
مہرباں کوئی نہیں ہے، عشق ہے
جو ازل سے ہجرتی ہیں، اشک ہیں
جو ان اشکوں میں مکیں ہے عشق ہے
اے سراب جبر و استبداد سن
یہ جو پیاسوں کا یقیں ہے عشق ہے
کل جہاں دیوار ہی دیوار تھی
اب وہاں در ہے جبیں ہے عشق ہے
خواب ہی میں دیکھ لے تعبیر خواب
کون ایسا پیش بیں ہے عشق ہے
جیتے جی دشوار کتنا تھا سفر
اب نہ دنیا ہے نہ دیں ہے عشق ہے
رنج و غم کی سرمئی چادر تقی
جب سے بالائے زمیں ہے عشق ہے
توقیر تقی
No comments:
Post a Comment