اب تو آہٹ سے مِری نیند اڑی جاتی ہے
اتنی وحشت ہے کہ ہر سانس رکی جاتی ہے
دور بیٹھے ہوئے بچوں کا خیال آتا ہے
جاگتی آنکھوں ہی میں رات کٹی جاتی ہے
خوف و دہشت ہے خموشی کا ہے عالم ہر سو
دل کی دنیا تو مِری آج لٹی جاتی ہے
اس قدر خوف ہے دنیا میں وبا کا دیکھو
اب کہاں دل کی کوئی بات سنی جاتی ہے
کوئی بھی کام کہاں مجھ سے کیا جائے گا
شاعری بھی کہاں ایسے میں لکھی جاتی ہے
پڑی مشکل تو رہا ساتھ مِرے فضلِ خدا
زیست تو بوڑھے کی مانند تھکی جاتی ہے
یہ بتایا ہے شگفتہ نے اسے رک رک کے
دل کی یہ بات ہے جو پیار سے کی جاتی ہے
شگفتہ شفیق
No comments:
Post a Comment