Tuesday 27 April 2021

ٹک کے بیٹھے کہاں بیزار طبیعت ہم سے

 ٹک کے بیٹھے کہاں بیزار طبیعت ہم سے

چھین ہی لے نہ کوئی آ کے یہ نعمت ہم سے

بر سر عام یہ کہتے ہیں کہ ہم جھوٹے ہیں

اس بھرے شہر میں زندہ ہے صداقت ہم سے

ہم جو مظلوم ہیں اک طرح سے ظالم ہیں ہم

ہر ستمگار کے بازو میں ہے طاقت ہم سے

دیکھ پائے نہ تو آنکھیں ہی بجھا لیں ہم نے

اور کیا چاہتا ہے لفظ شرافت ہم سے

ہر گھڑی سر کو ہتھیلی پہ سجائے رکھنا

گرمیٔ رونق بازار ہلاکت ہم سے

یعنی قاتل کے لیے رحم کا جذبہ مفقود

اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی عداوت ہم سے

ہم زمیں زاد فلک زاد نہیں ہیں پھر بھی

فن کی معراج پہ ہے لفظ کی حرمت ہم سے


شفیق سلیمی

No comments:

Post a Comment