دیکھ سونا نہیں
آج کی رات کا آخری خواب ہے
دیکھ لیں، جاگ لیں
اس نے پھر دوسری بار ہونا نہیں
دیکھ سونا نہیں
دیکھ رونا نہیں
وہ جو پریاں تِری نیند کی بس میں تھیں
ان کا گھر آ گیا
ایک بادل کا سایہ اچانک تِری آنکھ سے ہو کے سیدھا ادھر آ گیا
یار سونا نہیں
دیکھ رونا نہیں
دیکھ کھونا نہیں
گمشدہ موسموں کی یہ تسبیح کرتے ہوئے خال و خط
جلتی بجھتی ہوئی آگ کو تاپتے ہاتھ کی اپنی حد
اس تماشے پہ رکنا تو بنتا ہے پر
اس میں ہونا نہیں
دیکھ کھونا نہیں
ذیشان حیدر نقوی
No comments:
Post a Comment