تجھے اے زندگی ہم پھر سے جی پائیں نہیں ممکن
مگر تھک کر کہیں رستے میں گر جائیں نہیں ممکن
ہمیں رُسوائیوں کا خوف تو محسوس ہوتا ہے
مگر ہم عشق سے تیرے مُکر جائیں نہیں ممکن
اندھیرا وحشتوں کا کب نگل جائے پتہ کیا ہے
پرائے جگنوؤں کا چاند گھر لائیں نہیں ممکن
یہ عالم ہے کہ اکثر آپ خود کو بھُول بیٹھے ہیں
تمہیں کیسے بھُلانے کا ہنر پائیں نہیں ممکن
ہم اپنے دشت میں تنہائیوں کی رات کاٹیں گے
تیرے گلزار آنگن سے گزر جائیں نہیں ممکن
جو حاصل ہے اسے اپنا کہیں تو عقل روتی ہے
لا حاصل عشق کے پہلو میں بکھر جائیں نہیں ممکن
صائمہ شہاب
No comments:
Post a Comment