سبھی چہروں میں اک چہرے کو اکثر ڈھونڈتے رہنا
ستاروں سے کبھی بچھڑے ہوؤں کا پوچھتے رہنا
نجانے کیا ہوا جاناں جو دل نے شغل اپنایا
بہت سنسان گلیوں میں یوں شب بھر گھومتے رہنا
کبھی تتلی پکڑ لینا، کبھی خوشبو سے چِڑ جانا
کبھی بچوں کی طرح جگنوؤں سے کھیلتے رہنا
بہت مایوس ہو جانا، بہت چُپ چاپ سا پھِرنا
کبھی بے بات، بے وجہ بہت ہی بولتے رہنا
کبھی لوگوں سے لڑ پڑنا، کبھی لوگوں سے ڈر جانا
کبھی گھنٹوں بلا مقصد فضا میں گھورتے رہنا
تمہارے بعد تو شاہد یہ عادت ہی بنا لی ہے
گھنی تاریک راتوں میں یوں پہروں جاگتے رہنا
شاہد راؤ
No comments:
Post a Comment