Monday, 26 April 2021

مسیحا کی نظر مایوس بیماروں سے الجھی ہے

مسیحا کی نظر مایوس بیماروں سے الجھی ہے

قیامت کن شکستہ حال دیواروں سے الجھی ہے

تِری دنیا کا یا رب کیا بگاڑا ہے غریبوں نے

تِری دنیا بھی ہم تقدیر کے ماروں سے الجھی ہے

ہماری زندگی کیا ہے جہان رنج و راحت ہے

کبھی پھولوں سے لپٹی ہے کبھی خاروں سے الجھی ہے

یہ شاید آخری اک مرحلہ ہے آزمائش کا

محبت آج اپنے ناز برداروں سے الجھی ہے

نہ ذوق دید ہے باقی نہ عنوان طلب انجم

نظر کس بیکسی میں شوخ نظاروں سے الجھی ہے


انجم سہارنپوری

No comments:

Post a Comment