زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا
یہ ترجماں تو بنی تھی مگر بنا نہ گیا
ہم ان کے وعدۂ فردا کو لے کے بیٹھے ہیں
کہ جن سے آج کا وعدہ وفا کیا نہ گیا
امانتاً مِرے سینے میں وہ فسانہ ہے
جو دل کی آنکھ سے دیکھا گیا سنا نہ گیا
دمِ آخیر وہ دینے لگے حیاتِ دگر
پھر ایک عمر کا احسان تھا لیا نہ گیا
قصوروار ہیں دونوں نگاہ ہو کہ زباں
کہ جو کہا گیا اے دوست وہ کہا نہ گیا
اجتبیٰ رضوی
No comments:
Post a Comment