Monday 26 April 2021

زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا

 زباں سے دل کا فسانہ ادا کیا نہ گیا

یہ ترجماں تو بنی تھی مگر بنا نہ گیا

ہم ان کے وعدۂ فردا کو لے کے بیٹھے ہیں

کہ جن سے آج کا وعدہ وفا کیا نہ گیا

امانتاً مِرے سینے میں وہ فسانہ ہے

جو دل کی آنکھ سے دیکھا گیا سنا نہ گیا

دمِ آخیر وہ دینے لگے حیاتِ دگر

پھر ایک عمر کا احسان تھا لیا نہ گیا

قصوروار ہیں دونوں نگاہ ہو کہ زباں

کہ جو کہا گیا اے دوست وہ کہا نہ گیا

اجتبیٰ رضوی

No comments:

Post a Comment