Monday 26 April 2021

بھرے تو کیسے پرندہ بھرے اڑان کوئی

 بھرے تو کیسے پرندہ بھرے اڑان کوئی

نہیں ہے تیر سے خالی یہاں کمان کوئی

تھیں آزمائشیں جتنی تمام مجھ پہ ہوئیں

نہ بچ کے جائے گا اب مجھ سے امتحان کوئی

یہ طوطا مینا کے قصے بہت پرانے ہیں

ہمارے عہد کی اب چھیڑو داستان کوئی

نئے زمانے کی ایسی کچھ آندھیاں اٹھیں

رہا سفینے پہ باقی نہ بادبان کوئی

بکھر کے رہ گئیں رشتوں کی ساری زنجیریں

بچا سکا نہ روایت کو خاندان کوئی

ذکی ہمارا مقدر ہیں دھوپ کے خیمے

ہمیں نہ راس کبھی آیا سائبان کوئی


ذکی طارق

No comments:

Post a Comment