Monday, 26 April 2021

کچھ نہیں جانتی جیتی ہوں کہ ہاری ہوئی ہوں

 کچھ نہیں جانتی جیتی ہوں کہ ہاری ہُوئی ہُوں

میں بہت سوچ سمجھ کر ہی تمہاری ہوئی ہوں

چل، تجھے چاند نگر آج گھما کر لاؤں

تیری خاطر مہ و انجم کی سواری ہوئی ہوں

اس کو چاہا بھی بہت، اس سے گریزاں بھی رہی

کیا پتا کون سے احساس کی ماری ہوئی ہوں

اچھا لگتا ہے اسی سحر میں کھوئے رہنا

وقت جو تیرے تصور میں گزاری ہوئی ہوں

مجھ میں جو رنگ تھے مستور نمایاں ہوئے ہیں

جان میں جب سے تجھے جان سے پیاری ہوئی ہوں

دھوپ بن کر ابھی آ جاؤ ، سُکھا دو مجھ کو

گیلے کپڑے کی طرح چھت پہ پساری ہوئی ہوں

کُھل کے اقرارِ محبت نہیں کر سکتی، صدف

کیوں سمجھتے نہیں، تہذیب کی ماری ہوئی ہوں


صدف اقبال

No comments:

Post a Comment