قسمت آنکھ مچولی کھیلے موت رہے ہرجائی
ہر دو صورت بھوگ رہا ہوں جیون کی رُسوائی
نغمے کی چنچلتا ہو یا نوحے کی گِریائی
لے کا ساتھ نبھائیں ہر دم نوبت اور شہنائی
اک کونے میں بیٹھے بیٹھے علم اُجالے عالم
کتنی کرنیں بانٹ رہی ہے سورج کی تنہائی
ممکن ہے کچھ پھُول اُگیں اور کل کا لہجہ مہکے
اس نیّت سے ایک غزل بھی آنگن میں دفنائی
ایک اسیری سے توڑی ہیں دنیا کی زنجیریں
ایک کڑا، اک بیڑی میں نے بیٹے کو پہنائی
پتھر مارے پیروں روندھا ہانپ گیا میں اکبر
میرے آگے ناچ رہی تھی میری ہی پرچھائی
حسنین اکبر
No comments:
Post a Comment