اب ظاہر و باطن کو بہم کرنے لگے ہیں
ہم حرف و معانی کو یوں ضم کرنے لگے ہیں
میں جان چکی اگلا سفر تنہا کٹے گا
الفاظ تِرے آنکھوں کو، نم کرنے لگے ہیں
مجھ ایسے مناظر پہ بھلا کس کی نظر ہو
احسان کہ وہ نظرِ کرم کرنے لگے ہیں
کھائی تھی قسم اب کہ محبت نہ کریں گے
کیا اس کا کفارہ ہو کہ ہم کرنے لگے ہیں
یکسر تو مٹا سکتے نہیں وقت لگے گا
ہم خود کو تِری ذات سے کم کرنے لگے ہیں
ہر عیب بجا ہم میں، منافق تو نہیں ہیں
جو جھیل رہے ہیں وہ رقم کرنے لگے ہیں
افسوس یہ ویرانی تمہی دیکھ نہ پائے
اب لوگ مِری آنکھوں کا غم کرنے لگے ہیں
ثروت یہ امر ہو گی تبھی اپنی غزل پر
ہم، میر کے اشعار کا دم کرنے لگے ہیں
ثروت مختار
No comments:
Post a Comment