بانسری
میرے وجود میں
پیاس کی بانسری بجتی ہے
اور سارے رنگ ناچتے ہیں
اعمال
ایمان سے جُدا نہیں ہوتے
زخم میں انگلی ڈال کر
دُکھ ناپے نہیں جاتے
اپنے اپنے روگ
اپنی اپنی سطح پہچانتے ہیں
لوگ کہاں تک
خدا کو جانتے ہیں
زندگی قبر کا جنم ہے
اور موت زندگی کا
میں ایک کنول چھُونے کو
پانی میں اُتری
اور پاؤں پانی میں گم ہو گئے
انسان نے ضرورت کے چولہے پہ
بدن کی روٹی سینک لی
ایک وقت
میرے اندر جاگتا ہے
ایک کی گود میں سوتی ہوں
اپنے مکان کی دیواروں میں
خود چُنی گئی ہوں
میرے وجود میں
پیاس کی بانسری بجتی ہے
اور سارے رنگ ناچتے ہیں
بشریٰ سعید
No comments:
Post a Comment