Monday 26 April 2021

کھڑکی میں ایک نار جو محو خیال ہے

 کھڑکی میں ایک نار جو محوِ خیال ہے

شاید کسی کے پیار کو پانے کی چال ہے

کمرے کی چیز چیز پہ ہے حسرتوں کی گرد

آنگن میں اجلی دھوپ کا پھیلا جمال ہے

الفاظ کے گہر تِری خاطر پرو لیے

یہ بھی تو تیرے حسنِ طلب کا کمال ہے

اظہارِ عشق کرتا ہے اب راہ چلتے بھی

اس عہد کا جواں بڑا روشن خیال ہے

برسوں کے یار کب کے جدا ہو گئے سعید

اس شہر میں ضرور مروت کا کال ہے


تاج سعید

No comments:

Post a Comment