Monday, 26 April 2021

ہوتی تھیں بارشیں مگر بہتات یوں نہ تھ

 ہوتی تھیں بارشیں مگر بہتات یوں نہ تھی

ہم پر نوازشات کی برسات یوں نہ تھی

لہجے کے اختلاف سے معنی بدل گئے

واللہ بات اس طرح تھی بات یوں نہ تھی

اب ہے کہاں وہ چاندنی تاروں کی کہکشاں

تنہا، اداس، سہمی ہوئی، رات یوں نہ تھی

ہر شخص اپنے آپ میں گم ہو کے رہ گیا

اب جس طرح ہے صورت حالات یوں نہ تھی

مدقوق زرد ہو گئے چہرے گلاب سے

خوشحال دن تھے بے بسی کی رات یوں نہ تھی

دارد یہ التفات چہ معنی غزل کہو

چلتے تھے چال پہلے بھی پر گھات یوں نہ تھی


شگفتہ غزل

No comments:

Post a Comment