ہوتی تھیں بارشیں مگر بہتات یوں نہ تھی
ہم پر نوازشات کی برسات یوں نہ تھی
لہجے کے اختلاف سے معنی بدل گئے
واللہ بات اس طرح تھی بات یوں نہ تھی
اب ہے کہاں وہ چاندنی تاروں کی کہکشاں
تنہا، اداس، سہمی ہوئی، رات یوں نہ تھی
ہر شخص اپنے آپ میں گم ہو کے رہ گیا
اب جس طرح ہے صورت حالات یوں نہ تھی
مدقوق زرد ہو گئے چہرے گلاب سے
خوشحال دن تھے بے بسی کی رات یوں نہ تھی
دارد یہ التفات چہ معنی غزل کہو
چلتے تھے چال پہلے بھی پر گھات یوں نہ تھی
شگفتہ غزل
No comments:
Post a Comment