Monday, 26 April 2021

مجھے وہ خوف تھا کہ جس سے کوئی بھی بچا نہیں

 خواہش


مجھے وہ خوف تھا

کہ جس سے کوئی بھی بچا نہیں

وہی تو اک سوال تھا

کہ جس سوال کا جواب

آج تک

کسی کو بھی ملا نہیں

بس اس کے جسم و جاں کے بے کنار

پانیوں میں پیرنے کا بھوت

سر پہ یوں سوار تھا

اور ایسا انتظار تھا

کہ ایک ایک پَل جو کٹ رہا تھا

بار تھا

یہ سب جہان تھا فضول

گرد تھا غبار تھا


حارث خلیق

No comments:

Post a Comment