خواہش
مجھے وہ خوف تھا
کہ جس سے کوئی بھی بچا نہیں
وہی تو اک سوال تھا
کہ جس سوال کا جواب
آج تک
کسی کو بھی ملا نہیں
بس اس کے جسم و جاں کے بے کنار
پانیوں میں پیرنے کا بھوت
سر پہ یوں سوار تھا
اور ایسا انتظار تھا
کہ ایک ایک پَل جو کٹ رہا تھا
بار تھا
یہ سب جہان تھا فضول
گرد تھا غبار تھا
حارث خلیق
No comments:
Post a Comment