یاد آئے گا بہت دھوپ میں سایا ان کا
اپنے آنگن میں ہی یہ بوڑھا شجر رہنے دو
غیر کے ہاتھوں میں کیوں دیتے ہو اپنی پگڑی
بات گھر کی ہے تو پھر بات کو گھر رہنے دو
آنے جانے سے ہی قائم ہیں جہاں کے رشتے
آنا جانا ہے تو دیوار میں در رہنے دو
کون مانے گا زمانے میں معزز مجھ کو
فیصلہ میرا ہی تم جان پدر رہنے دو
ہم فقیروں کو ضرورت ہی نہیں ہے اس کی
دنیا والوں کے لیے دنیا کا زر رہنے دو
مولوی محمد اسلم
No comments:
Post a Comment