Sunday, 25 April 2021

گرجتے بادلوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

 گرجتے بادلوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

برستی بارشوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

مجھے بس ذات میں تیری سبھی موسم ملے جاناں

بدلتے موسموں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

سبھی داغوں کو دل کے آنسوؤں نے دھویا دیا ایسے

بکھرتے آنسوؤں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

ملے جو نینوں سے تو بِیتی رات آنکھوں میں

سُہانے رتجگوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

جو میرے نا خدا تم ہو تو کیوں ساحل کی ہو پرواہ

اُبھرتے ساحلوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

یہ روشن آئینہ جو ہے تِرے چہرے کا جلوہ ہے

چمکتے آئینوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا

سحرؔ کے دوستوں میں تو فقط اُجلے سویرے ہیں

سو اپنے دشمنوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا


سبینہ سحر

No comments:

Post a Comment