گرجتے بادلوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا
برستی بارشوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا
مجھے بس ذات میں تیری سبھی موسم ملے جاناں
بدلتے موسموں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا
سبھی داغوں کو دل کے آنسوؤں نے دھویا دیا ایسے
بکھرتے آنسوؤں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا
ملے جو نینوں سے تو بِیتی رات آنکھوں میں
سُہانے رتجگوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا
جو میرے نا خدا تم ہو تو کیوں ساحل کی ہو پرواہ
اُبھرتے ساحلوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا
یہ روشن آئینہ جو ہے تِرے چہرے کا جلوہ ہے
چمکتے آئینوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا
سحرؔ کے دوستوں میں تو فقط اُجلے سویرے ہیں
سو اپنے دشمنوں سے اب مجھے کچھ بھی نہیں کہنا
سبینہ سحر
No comments:
Post a Comment