Sunday 25 April 2021

غزل کا حسن ہے اور گیت کا شباب ہے وہ

 غزل کا حسن ہے اور گیت کا شباب ہے وہ

نشہ ہے جس میں سخن کا وہی شراب ہے وہ

اسے نہ دیکھ مہکتا ہوا گُلاب ہے وہ

نہ جانے کتنی نگاہوں کا انتخاب ہے وہ

مثال مل نہ سکی کائنات میں اس کی

جواب اس کا نہیں کوئی لا جواب ہے وہ

مِری ان آنکھوں کو تعبیر مل نہیں پاتی

جسے میں دیکھتا رہتا ہوں ایسا خواب ہے وہ

نہ جانے کتنے حجابوں میں وہ چھُپا ہے مگر

نگاہِ دل سے جو دیکھوں تو بے حجاب ہے وہ

اُجالے اپنے لُٹا کر وہ ڈُوب جائے گا

حسین صبح کا رخشندہ آفتاب ہے وہ

وہ مجھ سے پوچھنے آیا ہے میرا حال افضل

جسے بتا نہ سکوں دل میں اضطراب ہے وہ


افضل الہ آبادی

No comments:

Post a Comment