Monday 26 April 2021

کتنی دور سے چلتے چلتے خواب نگر تک آئی ہوں

 کتنی دور سے چلتے چلتے خواب نگر تک آئی ہوں

پاؤں میں میں چھالے سہہ کر اپنے گھر تک آئی ہوں

کالی رات کے سناٹے کو میں نے پیچھے چھوڑ دیا

شب بھر تارے گنتے گنتے دیکھ سحر تک آئی ہوں

لکھتے لکھتے لفظوں سے میری بھی کچھ پہچان ہوئی

ساری عمر کی پونجی لے کر آج ہنر تک آئی ہوں

شاید وہ مٹی سے کوئی تیری شکل بنا پائے

تیرے خد و خال بتانے کوزہ گر تک آئی ہوں

سورج کی شدت نے مجھ کو کتنا ہے بے حال کیا

دھوپ کی چادر اوڑھ کے سر پہ ایک شجر تک آئی ہوں

بابل کے آنگن سے اک دن ہر بیٹی کو جانا ہے

آنکھوں میں نئے خواب سجا کر تیرے در تک آئی ہوں

اپنے ہاتھ میں علم کی شمع ارم نے تھامے رکھی ہے

میں تو ایک اُجالا لے کر دیدہ ور تک آئی ہوں


ارم زہرا

No comments:

Post a Comment