کتنی دور سے چلتے چلتے خواب نگر تک آئی ہوں
پاؤں میں میں چھالے سہہ کر اپنے گھر تک آئی ہوں
کالی رات کے سناٹے کو میں نے پیچھے چھوڑ دیا
شب بھر تارے گنتے گنتے دیکھ سحر تک آئی ہوں
لکھتے لکھتے لفظوں سے میری بھی کچھ پہچان ہوئی
ساری عمر کی پونجی لے کر آج ہنر تک آئی ہوں
شاید وہ مٹی سے کوئی تیری شکل بنا پائے
تیرے خد و خال بتانے کوزہ گر تک آئی ہوں
سورج کی شدت نے مجھ کو کتنا ہے بے حال کیا
دھوپ کی چادر اوڑھ کے سر پہ ایک شجر تک آئی ہوں
بابل کے آنگن سے اک دن ہر بیٹی کو جانا ہے
آنکھوں میں نئے خواب سجا کر تیرے در تک آئی ہوں
اپنے ہاتھ میں علم کی شمع ارم نے تھامے رکھی ہے
میں تو ایک اُجالا لے کر دیدہ ور تک آئی ہوں
ارم زہرا
No comments:
Post a Comment