Tuesday 27 April 2021

میں نے ویرانے کو گلزار بنا رکھا ہے

 میں نے ویرانے کو گلزار بنا رکھا ہے 

کیا برا ہے جو حقیقت کو چھپا رکھا ہے 

دور حاضر میں کوئی کاش زمیں سے پوچھے 

آج انسان کہاں تُو نے چھپا رکھا ہے 

وہ تو خود غرضی ہے لالچ ہے ہوس ہے جن کا 

نام اس دور کے انساں نے وفا رکھا ہے

وہ مِرے صحن میں برسے گا کبھی تو کھُل کر 

میں نے خواہش کا شجر کب سے لگا رکھا ہے 

میں تو مشتاق ہوں آندھی میں بھی اڑنے کے لیے 

میں نے یہ شوق عجب دل کو لگا رکھا ہے 

میں کہ عورت ہوں مِری شرم ہے میرا زیور 

بس تخلص اسی باعث تو حیا رکھا ہے


لتا حیا

No comments:

Post a Comment