میں نے ویرانے کو گلزار بنا رکھا ہے
کیا برا ہے جو حقیقت کو چھپا رکھا ہے
دور حاضر میں کوئی کاش زمیں سے پوچھے
آج انسان کہاں تُو نے چھپا رکھا ہے
وہ تو خود غرضی ہے لالچ ہے ہوس ہے جن کا
نام اس دور کے انساں نے وفا رکھا ہے
وہ مِرے صحن میں برسے گا کبھی تو کھُل کر
میں نے خواہش کا شجر کب سے لگا رکھا ہے
میں تو مشتاق ہوں آندھی میں بھی اڑنے کے لیے
میں نے یہ شوق عجب دل کو لگا رکھا ہے
میں کہ عورت ہوں مِری شرم ہے میرا زیور
بس تخلص اسی باعث تو حیا رکھا ہے
لتا حیا
No comments:
Post a Comment