پیارے، قدیم گاؤں، پرانا رواج ہے
سکے اٹھا، کپاس کے بدلے اناج ہے
گستاخ! دیکھ، شاہ کے آثار کا جلوس
پاپوش ہے، عصا ہے، پیالہ ہے، تاج ہے
پیشہ مِرا چراغ بنانا تھا اے حضور
پر اب کے سال تیز ہواؤں کا راج ہے
عیسیٰ کے بعد شمعِ عرب کے ظہور تک
کوڑھی سے کون پوچھتا، کیسا مزاج ہے
جلوہ رقم کرے ہے مِرے مؤقلم کی آنکھ
رنگ اور روشنی کا عجب امتزاج ہے
امروز اک آہ ہے، فردا فقط خیال
اس عرصۂ ظہور میں موجود آج ہے
میں ہوں کسی چراغ کے ہونے کی روشنی
آدم ہوں، بادشاہ ہوں، میرا ہی راج ہے
مشک و علم کی شکل میں انکار دیکھ لے
در اصل یہ فغاں بھی مِرا احتجاج ہے
احمد جہانگیر
No comments:
Post a Comment