Monday 26 April 2021

مرگ مسلسل کی راتوں میں

 مرگِ مسلسل کی راتوں میں


دُھن چھِڑتی ہے

سنسان دریچوں کے باہر

جہاں کوئی چراغ نہیں جلتا

جہاں کوئی امید نہیں جگتی

ان راتوں میں

جب آنکھیں بھیگتی جاتی ہیں

اور آنسو نوحہ پڑھتے ہیں

ان راتوں کا جب چہل چراغ جلانے والے خاک ہوئے

جب خوابوں میں اک تیز آندھی کا شور ہوا

اور میٹھی نیند سے جاگنے والی آنکھوں میں

ناوقت کی بیداری سے تھکاوٹ سی جھلکی

پیشانیوں پر حیرت کی سلوٹ پڑنے لگی

باہر آوازوں کے جھکڑ چلتے ہیں

اور میں سنتا ہوں

میں ایک چراغ سے بجھنے لگتا ہوں

کوئی چیختا ہے

میں باہر گلی میں جھانکتا ہوں اور دیکھتا ہوں

سناٹا ہے

سینے کے اندر اٹھتے ہیں

وہ بین جو اس شب عورتوں نے دہرائے تھے

میں شور سے باہر بھاگتا ہوں

پھر باہر کے سناٹے سے گھبرا کر اندر ہوتا ہوں

جب آدھی رات کی نیند گزر جاتی ہے

اور اس دھن میں عمرِ رواں کا لمحہ چھلتا جاتا ہے

تب کوئی چراغ نہیں جلتا


احسان اصغر

No comments:

Post a Comment