جانتی ہوں کہ تجارت نہیں ہونے والی
اس لیے دل پہ حکومت نہیں ہونے والی
تیری تصویر کئی بار اُتر سکتی ہے
اب کئی بار ندامت نہیں ہونے والی
تیرے کوچے میں چلے آئے ہیں صرصر کی طرح
اب تِرے سامنے اُلفت نہیں ہونے والی
زندگی فلم ہے سو کاٹ بھی سکتے ہیں مگر
ایک ہی وقت شرارت نہیں ہونے والی
بسترِ ہجر پہ میں پھول نچھاور کر دوں
مجھ سے اتنی تو غنیمت نہیں ہونے والی
سنتی آئی ہوں کہ اس شہر میں کٹ جاتی ہے
سو محبت میں خیانت نہیں ہونے والی
میرے ہاتھوں میں کئی آبلے پڑ سکتے ہیں
ہاں مگر تجھ سے محبت نہیں ہونے والی
سر کے بَل چلنے پہ قربان کیا جاتا ہے
ہم سے ایسے میں عداوت نہیں ہونے والی
میں نے ہر بار تجھے دل سے پکارا ہے سو اب
ایسی ویسی تو قیامت نہیں ہونے والی
سرحدی کام ہیں سو سرحدی رہنے دو میاں
اس کی خاطر کوئی نعمت نہیں ہونے والی
رابعہ ملک
No comments:
Post a Comment