Sunday, 25 July 2021

کھردرا گرچہ اس کا لہجہ تھا

 کھردرا گرچہ اس کا لہجہ تھا

پھر بھی ہر لفظ جان لیوا تھا

اس کو رخصت تو کر دیا لیکن

دل سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا

ایک دریا تھا کربِ پیہم کا

اشک کہنے کو یوں تو قطرہ تھا

سرد راتوں کی سُونی چوکھٹ پر

اس کی یادوں کا سخت پہرا تھا

دشت و صحرا لہو سے تھے سیراب

اور سجدے میں ایک پیاسا تھا

چیخ اٹھے تھے پاؤں کے چھالے

پھر بھی راہوں پہ ہم کو چلنا تھا

جب اصولوں پہ آنچ آتی تھی

راستہ تم کو پھر بدلنا تھا

بارشوں کی دعائیں کیا کرتے

گھر تو ہر سمت سے ٹپکتا تھا


عنبر عابد

No comments:

Post a Comment