کھردرا گرچہ اس کا لہجہ تھا
پھر بھی ہر لفظ جان لیوا تھا
اس کو رخصت تو کر دیا لیکن
دل سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا
ایک دریا تھا کربِ پیہم کا
اشک کہنے کو یوں تو قطرہ تھا
سرد راتوں کی سُونی چوکھٹ پر
اس کی یادوں کا سخت پہرا تھا
دشت و صحرا لہو سے تھے سیراب
اور سجدے میں ایک پیاسا تھا
چیخ اٹھے تھے پاؤں کے چھالے
پھر بھی راہوں پہ ہم کو چلنا تھا
جب اصولوں پہ آنچ آتی تھی
راستہ تم کو پھر بدلنا تھا
بارشوں کی دعائیں کیا کرتے
گھر تو ہر سمت سے ٹپکتا تھا
عنبر عابد
No comments:
Post a Comment