چارہ گر کو بھی تو کرنا استخارہ چاہیے
جب کوئی سائل کہے چارہ دوبارہ چاہیے
اپنے حصے کا منافع یار کو میں نے دیا
پھر کہا اب تیرے حصے کا خسارہ چاہیے
ایسے لگتا ہے کسی گرداب میں ہے زندگی
عزم و ہمت سے مجھے میرا کنارہ چاہیے
کس قدر تاریک راہوں کے مسافر ہیں یہاں
ہر کوئی کہتا ہے بس روشن ستارہ چاہیے
آدمی کی خواہشیں رکتی نہیں ہیں عمر بھر
گھر اگر ذاتی بھی ہو اس کو چوبارہ چاہیے
آدمی کم ظرف کوئی پھولتا ہے کس طرح
وہ دکھانے کے لیے تو بس غبارہ چاہیے
کوئی تو اسراف کی دلدل میں ڈوبا ناک تک
اور محنت کش کہے کرنا گزارہ چاہیے
وقت کی رفتار کا ادراک شاکر جب ہوا
دل سے نکلی یہ صدا کہ پانچ بارہ چاہیے
بی اے شاکر
No comments:
Post a Comment