Thursday, 1 July 2021

اسے میری مجھے اس کی بہت تھوڑی ضرورت تھی

 اسے میری مجھے اس کی بہت تھوڑی ضرورت تھی

تعلق کو بچانے میں مگر گہری ضرورت تھی

مجھے ہاں یاد پڑتے ہیں وہ مجبوری کے کاٹے دن

مگر دو چار قدموں کی بھلے بھاری ضرورت تھی

سدا سے ایک چہرہ جو مِری آنکھوں میں بستا تھا

سدا سے دلربائی کی اسے دُہری ضرورت تھی

کبھی فاقوں کی لمبی لسٹ اپنے ہاتھ میں تھامی؟

ارے غربت کے ماروں کو یہاں کتنی ضرورت تھی

ابھی سوچو کہ لہجوں نے کہاں تک لا کے چھوڑا ہے

کبھی میں تھی، فقط میں ہی تِری پہلی ضرورت تھی

خوشی سے ہجر کی گاڑی میں بیٹھے اور خداحافظ

اسے میری مجھے اس کی فقط اتنی ضرورت تھی


وشال سحر

No comments:

Post a Comment