اسے میری مجھے اس کی بہت تھوڑی ضرورت تھی
تعلق کو بچانے میں مگر گہری ضرورت تھی
مجھے ہاں یاد پڑتے ہیں وہ مجبوری کے کاٹے دن
مگر دو چار قدموں کی بھلے بھاری ضرورت تھی
سدا سے ایک چہرہ جو مِری آنکھوں میں بستا تھا
سدا سے دلربائی کی اسے دُہری ضرورت تھی
کبھی فاقوں کی لمبی لسٹ اپنے ہاتھ میں تھامی؟
ارے غربت کے ماروں کو یہاں کتنی ضرورت تھی
ابھی سوچو کہ لہجوں نے کہاں تک لا کے چھوڑا ہے
کبھی میں تھی، فقط میں ہی تِری پہلی ضرورت تھی
خوشی سے ہجر کی گاڑی میں بیٹھے اور خداحافظ
اسے میری مجھے اس کی فقط اتنی ضرورت تھی
وشال سحر
No comments:
Post a Comment