Thursday, 1 July 2021

تھوڑا قریب آ کے سہولت سے مار دے

 تھوڑا قریب آ کے سہولت سے مار دے

ہم تشنگانِ عشق ہیں قربت سے مار دے

آنکھوں میں تیری کب ہے شناسائی کی رمق

تیرا سلوک تو مجھے حیرت سے مار دے

تسلیم ہیں تِری یہ جفائیں، مگر صنم

نفرت سے دیکھ مت یوں، محبت سے مار دے

قسطوں میں قتل کرتا ہے مجھ کو اے یار کیوں

آ، بیٹھ پاس میرے تُو، فرصت سے مار دے

لازم نہیں اسے کسی ہتھیار کی مدد

ہونٹوں کی نرمی اور حلاوت سے مار دے

شِدت ہے اتنی اس کے رویے میں وہ کبھی

ہو مہربان گر تو سخاوت سے مار دے

مقصود اس کو ہے یہ تڑپنا مِرا جبھی

جلوت سے مار دے کبھی خلوت سے مار دے

کرتا ہے قتل بیٹی جو غیرت کے نام پر

وہ شخص اپنا بیٹا بھی غیرت سے مار دے


صائم علی

No comments:

Post a Comment